گرچہ شکوہ بہت ہی ذاتی ہے

گرچہ شکوہ بہت ہی ذاتی ہے
مسئلہ میرا کائناتی ہے

ایسا لگتا ہے ایک میرے سوا
ساری دنیا کو نیند آتی ہے

کوئی ہو ڈور جس سے باندھ سکوں
ہر خوشی بھاگ بھاگ جاتی ہے

دوستو اور کوئی بات کرو
اس کی ہر بات دل دکھاتی ہے

کس لئے بار بار اسکی مجھے
خامشی گفتگو سناتی ہے

منظروں کا طلسم اپنی جگہ
کوئی منزل مجھے بلاتی ہے

کیوں ہوا بن کے تیری سرگوشی
میرے آنچل میں سرسراتی ہے

اگر تم جستجو کرتے

اگر تم جستجو کرتے
تلاش چار سو کرتے

ملاقاتیں تو ممکن تھیں 
اگر تم آرزو کرتے 

نظر ہی تم نہیں آئے 
زیارت با وضو کرتے 

بہاریں آنے والی تھیں 
گریباں کیا رفو کرتے 

اگر یوں چھوڑ جانا تھا 
نہ چرچا کو بہ کو کرتے 

نہ اتنے فاصلے بڑھتے 
شکایت روبرو کرتے 

مسرت ہم نہیں تھکتے 
تمھاری گفتگو کرتے

اسے کہنا قسم لے لو

تمھارے بعد گر ہم نے
کسی کا خواب دیکھا ہو
کسی کو ہم نے چاہا ہو
کسی کو ہم نے سوچا ہو
کسی سے بات کرنے کو
کبھی یہ ہونٹ ترسے ہوں
کسی کی بے وفائی پر
کبھی یہ نین برسے ہوں
کسی کی آرزو کی ہو
کسی کی جستجو کی ہو
کسی سے آس رکھی ہو
کوئی امید باندھی ہو
کوئی دل میں اتارا ہو
کوئی اگر تم سے پیارا ہو
کوئی دل میں...... بسایا ہو
کوئی......... اپنا بنایا ہو
کوئی روٹھا ہو اور ہم نے
اسے رو رو منایا ہو
دسمبر کی حسیں رت میں
کسی کے ہجر جھیلے ہوں
کسی کی یاد کا موسم
میرے آنگن میں کھیلا ہو
کسی سے بات کرنے کو
کبھی یہ ہونٹ ترسے ہوں
کسی کی بے وفائی پر
کبھی یہ نین برسے ہوں
اسے کہنا قسم لے لو

سگریٹ

ایک گمنام شاعر کی نظم ہے تھوڑی غیر اخلاقی سی لگتی ہے پر جو تصویر کشی اس نے کی وہ خوب کی ہے میں نے  بہت سوچا اسے اپنے بلاگ پر لگایا جاۓ یا نہیں لکن اس خوبصورت تصویر کشی کو میں اس بلاگ پر لگانے پر مجبور ہوں اس کے لئے بیشگی معذرت خواہ ہوں 

میں سگریٹ کو ہتھیلی پر الٹا کر خالی کرتا ہوں
پھر اس میں ڈال کر یادیں تمھاری خوب ملتا ہوں

ذرا سا غم ملاتا ہوں ہتھیلی کو گھماتا ہوں 
بسا کر تجھ کو سانسوں میں میں پھر سگریٹ سلگاتا ہوں 

لگا کر اپنے ہاتھوں سے محبت سے جلاتا ہوں 
تجھے سلگا کر سگریٹ میں ، میں تیرے کش لگاتا ہوں 

دھواں جب میرے ہونٹوں سے نکل کر رقص کرتا ہے 
میرے چاروں طرف کمرے میں تیرا عکس بنتا ہے 

میں اس سے باتیں کرتا ہوں 
وہ مجھ سے باتیں کرتا ہے 

یہ لمحہ بات کرنے کا بڑا انمول ہوتا ہے 
تیری یادیں تیری باتیں بڑا ماحول ہوتا ہے

میرے عشق کو نڈھال کر

میرے عشق کو نڈھال کر
کبھی ہجرکو بھی وصال کر

میری آنکھ کو بینائی دے
میرے قلب کو اجال کر

مجھے درس دے تو فنا کا
میرا عشق میں برا حال کر

مجھے دے سزا کوئی سخت سی
مجھے اس جہاں میں مثال کر

میری اصل صورت بگاڑ دے
کسی عشق کی بھٹی میں ڈال کر

مجھے بھی پلا کوئی ایسی شئے
کبھی میری آنکھیں بھی لال کر

وہ جو اُس جہاں میں حلال ہے
کبھی اس جہاں میں حلال کر

تیری طلب میں ہوںمیں دربدر
کبھی اس طرف بھی خیال کر

توڑ دے تعلّق کو اس طرح نبھانے سے

تھک گئے ہیں ہم تیرے روز کے ستانے سے
توڑ دے تعلّق کو اس طرح نبھانے سے

اب کے ہم گئے تو پھر لوٹ کر نہ آئیں گے
باز آ ہمیں توُ ہر وقت آزمانے سے

لہر بد گمانی کی پھر کوئی جکڑ لے گی
پھر وہ روٹھ جائے گا، فائدہ منانے سے؟

پوچھتے ہو کیا میرا شغلِ شامِ تنہائی؟
ملتی ہی نہیں فرصت اشکِ غم بہانے سے

ہر طرف فضاؤں میں ایک ہی فسانہ ہے
کیا ملا ہواؤں کو، رازداں بنانے سے

رُودادِ محبّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کچھ بھول گئے

رُودادِ محبّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کچھ بھول گئے 
دو دِن کی مُسرّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے

جب جام دیا تھا ساقی نے جب دور چلا تھا محفل میں 
اِک ہوش کی ساعت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گیے 

اب وقت کے نازک ہونٹوں پر مجروح ترنّم رقصاں ہے 
بیدادِ مشیّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بُھول گئے

احساس کے میخانے میں کہاں اَب فکر و نظر کی قندیلیں
آلام کی شِدّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے 

کُچھ حال کے اندھے ساتھی تھے کُچھ ماضی کے عیّار سجن 
احباب کی چاہت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے 

کانٹوں سے بھرا ہے دامنِ دِل شبنم سے سُلگتی ہیں پلکیں 
پُھولوں کی سخاوت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے 

اب اپنی حقیقت بھی ساغر بے ربط کہانی لگتی ہے 
دُنیا کی کی حقیقت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے 


ساغر صدیقی

یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں

یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں
ان میں کچھ صاحب اسرار نظر آتے ہیں

تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سو جاتے ہیں
ورنہ یہ لوگ تو بیدار نظر آتے ہیں

دور تک کوئی ستارہ ہے نہ جگنو کوئی
مرگ امید کے آثار نظر آتے ہیں

میرے دامن میں شراروں کے سوا کچھ بھی نہیں
آپ پھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں

کل جنھیں چھونہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر
آج وہ رونق بازار نظر آتے ہیں

حشر میں کون گواہی میری دے گا ساغر
سب تمہارے ہی طرف دار نظر آتے ہیں

ساغر صدیقی

پانی

پانی آنکھ میں بھر کر لایا جاسکتا ہے
اب بھی جلتا شہر بچایا جا سکتا ہے

ایک محبت اور وہ بھی ناکام محبت
لیکن اس سے کام چلایا جا سکتا ہے

دل پر پانی پینے آتی ہیں امیدیں
اس چشمے میں زہر ملایا جا سکتا ہے

مجھ بدنام سے پوچھتے ہیں فرہاد و مجنوں
عشق میں کتنا نام کمایا جا سکتا ہے

یہ مہتاب یہ رات کی پیشانی کا گھاؤ
ایسا زخم تو دل پر کھایا جا سکتا ہے

پھٹا پرانا خواب ہے میرا پھر بھی تابش
اس میں اپنا آپ چھپایا جا سکتا ہے

عباس تابش

یار کے غم کو عجب نقش گری آتی ہے


یار کے غم کو عجب نقش گری آتی ہے
پور پور آنکھ کے مانند بھری آتی ہے

بے تعلق نہ ہمیں جان کہ ہم جانتے ہیں
کتنا کچھ جان کے بھی بے خبری آتی ہے

اس قدر گوندھنا پڑتی ہے لہو سے مٹی
ہاتھ گھل جاتے ہیں تو کوزہ گری آتی ہے

کتنا رکھتے ہیں وہ اس شہر خموشاں کا خیال
روز اک ناؤ گلابوں سے بھری آتی ہے

زندگی کیسے بسر ہوگی کہ ہم کو تابش
صبر آتا ہے نہ آشفتہ سری آتی ہے

عباس تابش

تسلی دے کے مرا صبر آزمانا مت

تسلی دے کے مرا صبر آزمانا مت
میں وضع دارستم ہوں مجھے رلانا مت

میں سوچ ہی نہیں سکتا کسی کے بارے میں
مری شکست کا باعث مجھے بتانا مت

اب اور ٹوٹنے کاحوصلہ نہیں مجھ میں
جمال یار مجھے آئینہ بنانا مت

ہم اہل عشق پلٹنا محال کر دیں گے
ہمارے ساتھ کہیں دو قدم بھی جانا مت

ترے حساب سے ہم حیرتی ہی اچھے تھے
کہا نہ تھا کہ ہماری سمجھ میں آنا مت

اسی زمین پہ رہنا پسند ہے ہم کو
ہمارے پر بھی نکل آئیں تو اڑانا مت

عباس تابش

اُداسی

جب اپنی اپنی محرومی سے ڈر جاتے تھے ہم دونوں
کسی گہری اُداسی میں اتر جاتے تھے ہم دونوں

بہارِ شوق میں بادِ خزاں آثار چلتی تھی
شگفتِ گل کے موسم میں بکھر جاتے تھے ہم دونوں

تمہارے شہر کے چاروں طرف پانی ہی پانی تھا
وہی اک جھیل ہوتی تھی جدھر جاتے تھے ہم دونوں

سنہری مچھلیاں، مہتاب اور کشتی کے اندر ہم
یہ منظر گم تھا پھر بھی جھیل پر جاتے تھے ہم دونوں

زمستاں کی ہواؤں میں فقط جسموں کے خیمے تھے
دبک جاتے تھے ان میں جب ٹھٹھر جاتے تھے ہم دونوں

عجب اک بے یقینی میں گزرتی تھی کنارے پر
ٹھہرتے تھے نہ اٹھ کے اپنے گھر جاتے تھے ہم دونوں

بہت سا وقت لگ جاتا تھا خود کو جمع کرنے میں
ذرا سی بات پر کتنا بکھر جاتے تھے ہم دونوں

کہیں جانا نہیں تھا اس لئے آہستہ رو تھے ہم
ذرا سا فاصلہ کر کے ٹھہر جاتے تھے ہم دونوں

زمانہ دیکھتا رہتا تھا ہم کو چور آنکھوں سے
نہ جانے کن خیالوں میں گزر جاتے تھے ہم دونوں

بس اتنا یاد ہے پہلی محبت کا سفر تھا وہ
بس اتنا یاد ہے شام و سحر جاتے تھے ہم دونوں

حدودِ خواب سے آگے ہمارا کون رہتا تھا
حدودِ خواب سے آگے کدھر جاتے تھے ہم دونوں

عباس تابش

شکستہ خواب و شکستہ پا ہوں

شکستہ خواب و شکستہ پا ہوں ، مجھے دعاؤں میں‌یاد رکھنا
میں‌ آخری جنگ لڑ رہا ہوں ، مجھے دعاؤں میں‌ یاد رکھنا

ہوائیں پیغام دے گئی ہیں‌کہ مجھے دریا بلا رہا ہے 
میں‌ بات ساری سمجھ گیا ہوں مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا

نہ جانے کوفے کی کیا خبر ہو نہ جانے کس دشت میں بسر ہو
میں پھر مدینے سے جارہا ہوں ، مجھے دعاؤں میں‌ یاد رکھنا

مجھے عزیزان من! محبت کا کوئی بھی تجربہ نہیں ہے 
میں اس سفر میں‌ نیا نیا ہوں ، مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا

مجھے کسی سے بھلائی کی اب کوئی توقع نہیں ہے تابش
میں عادتا سب سے کہہ رہا ہوں مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا

عباس تابش

دشت میں پیاس بُجھاتے ہوئے مر جاتے ہیں

دشت میں پیاس بُجھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم پرندے کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں

ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں

گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا
ہم ترے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں

کس طرح لوگ چلے جاتے ہیں اُٹھ کر چُپ چاپ
ہم تو یہ دھیان میں لاتے ہوئے مر جاتے ہیں

اُن کے بھی قتل کا الزام ہمارے سر ہے
جو ہمیں زہر پلاتے ہوئے مر جاتے ہیں

یہ محبّت کی کہانی نہیں مرتی لیکن
لوگ کردار نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں

ہم ہیں وہ ٹوٹی ہوئی کشتیوں والے تابش
جو کناروں کو ملاتے ہوئے مر جاتے ہیں

عباس تابش

یاد

اک عرصے کے بعد ملا تو نام بھی میرا بھول گیا
جاتے جاتے جسنے کہا تھا یاد بہت تم آئو گے

اعتبار

مانا کہ پرفریب ھے وعدہ ترا مگر
کرتے ھیں انتظار بڑے اعتبار سے

دُعا

کہا اُس نے ، زمانہ درد ہے اور تُم دوا جیسے 
لگا، "تُم سے محبت ہے" مجھے اُس نے کہا جیسے

طلب کی اُس نے جب مجھ سے محبت کی وضاحت تو
بتایا، دَشت کے ہونٹوں پہ بارش کی دُعا جیسے

روایت

اب کے سوچا ہے محبت کی روایت بدلوں
اس سے پہلے وہ بھلائے، میں بھلا ڈالوں گی

ہاں تو کیا صرف تمہیں حق ہے جفا کرنے کا؟
اب کے دیوارِ وفا میں بھی گرا ڈالوں گی

محبت کی نہیں تم نے

اگر تم کو محبت تھی
تو تم نے راستوں سے جا کے پوچھا کیوں نہیں منزل کے بارے میں؟
ہواؤں پر کوئی پیغام تم نے لکھ دیا ہوتا 
درختوں پر لکھا وہ نام، تم نے کیوں نہیں ڈھونڈا؟
وہ ٹھنڈی اوس میں بھیگا، مہکتا سا گُلاب اور میں
مرے دھانی سے آنچل کو تمھارا بڑھ کے چھو لینا
چُرانا رنگ تتلی کے، کبھی جگنو کی لو پانا
کبھی کاغذ کی کشتی پر بنانا دل کی صورت اور اس پر خواب لکھ جانا
کسی بھنورے کی شوخی اور کلیوں کا وہ اِٹھلانا 
تمھیں بھی یاد تو ہوگا؟
اگر تم کو محبت تھی، تو تم یہ ساری باتیں بھول سکتے تھے؟
نہیں جاناں

محبت تم نے دیکھی ہے، محبت تم نے پائی ہے
محبت کی نہیں تم نے 

محبت

محبت میں کوئی بھی المیہ اچھا نہیں لگتا
وفا کے باب میں بھی تجزیہ اچھا نہیں لگتا

ہمیں اچھا تو لگتا ہے جِگر کے درد کو چُھونا
مگر یہ درد جس نے بھی دیا،اچھا نہیں لگتا

Archives

Copyright 2013, All rights reserved. Powered by Blogger.

Powered by:

Silsala سلسلہ Urdu Quality Poetry